ملول کر ہمیں اتنا ملول کر جاناں
کہ ہم نہ یاد کریں تجھ کو بھول کر جاناں

ہیں مثلِ نامۂ بے نام ، دستِ قاصد میں
سو ہم سے در بدروں کو وصول کر جاناں

پھر آگئے ترے کوچے میں خوش نگاہ ترے
غمِ جہاں کی صلیبوں پہ جھول کر جاناں

کبھی تو دستِ Ø+نائی سے سرخی لب سے
ہمارے زخمِ تمنا کو پھول کر جاناں

یہ اہلِ درد تری مملکت میں رہتے ہیں
سو تو خراج دلوں کے قبول کر جاناں

سو تو وہ ترکِ تعلق کا فیصلہ یہ سہی
سو اختیار کوئی تو اصول کر جاناں